وہ ایک بار جو ہم نے تری طرف دیکھا
پھر اس کے بعد تو بس ایک ہی طرف دیکھا
نظر جمی رہی تو ایک ہی طرف اپنی
وگرنہ دیکھنے کو تو سبھی طرف دیکھا
ترا ہی راستہ سب سے بھلا لگا ہم کو
روانہ ہوتے ہوئے بھی کئی طرف دیکھا
چلے تو ایک اندھیرے سفر پہ چل نکلے
نہ ایک بار بھی ہم نے کسی طرف دیکھا
خبر نہیں تھی کہ کیا چاہتے تھے دیکھنا ہم
جدھر نظر نہیں آیا اسی طرف دیکھا
اُدھر سے ہی کوئی اچھائی ہم کو مل جائے
اسی امید پہ ہم نے بُری طرف دیکھا
ذرا سا ایک اشارہ ہی تھا بہت ہم کو
پھر اس کے بعد نہیں آپ کی طرف دیکھا
پھر اس کے بعد تو آنکھیں ہی پھوڑ لیں ہم نے
جو ہم نے ایک نظر آخری طرف دیکھا
ہمارے ہر طرف اطرافِ زرد ہی تھے، ظفرؔ
یہ کیا کہ ہم نے ہمیشہ ہری طرف دیکھا
ظفر اقبال